![]() دیوبند ۔ ۲/جون پلاٹنگ ، ریئل اسٹیٹ میں زمینوں کی خریدو فروخت کی رائج بعض صورتیں،کرایہ داری میں حق وراثت اور کرایہ داری میں ڈپازٹ جیسے آج کل کے بڑے سوالات پر دارالعلوم دیوبند، ندوة العلماء ، جامعہ قاسمیہ شاہی مرادآباد سمیت ملک بھر کے نامور مفتیان کرام وفقہاء نے متفقہ طور پر فیصلہ کرکے ان کاروبار سے جڑے لاکھوں مسلمانوں کی شرعی رہنمائی کی ہے ۔ مساجد اور اوقاف کی زمینوں پر کرایہ دارو ں کے ناجائز قبضے اور زمینوں کی خریدو فروخت میں غبن اور دھوکہ دہی کے عام معاملات کی وجہ سے یہ سوالات کا فی اہم ہوگئے تھے ۔ جمعیة علماء ہند کے ادارہ مباحث فقہیہ کے زیر اہتمام دور روز تک ان مسائل پر کافی بحثوں ومباحثے ہوئے ۔طویل کرایہ داری میں کرایہ پر لیا گیا مکان یا دکان کرایہ دار کے مرنے کے بعد بھی ان کے ورثاء کے ذریعے قبضہ جمالینے پر کئی علماء نے تشویش کا اظہا ر کیا ۔ جمعیة علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمودمدنی نے اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ طویل کرایہ داری کی وجہ سے بہت سارے مسائل پیدا ہورہے ہیں اور بڑی تعداد مکان مالکوں کی ایسی ہے جن کی حق تلفی کرایے داروں کی طرف سے ہورہی ہے ، لہذا مالک اور کرایے دار کو ایک حیثیت میں نہیں رکھا جاسکتا ہے،اس تناظر میں اوقاف اور مساجد کی جائیدادوں کی کرایہ داری کے ساتھ ہورہے معاملات کا حوالہ دیتے ہوئے مولانا مدنی نے مفتیان کرام سے اپیل کی کہ طویل کرایے داری کے معاملے میں مالک مکان اور کرایے دار کے تحفظِ حق ،زیادتی اور ناانصافی کو مدنظر رکھ کر ہی کسی تجویز پر غور کریں ۔ اس پہلو پر دارالعلوم دیوبند کے مہتمم مولانا ابوالقاسم نعمانی، مفتی سعید احمد پالن پوری اور مولانا عتیق بستوی نے بھی یکساں طور سے تشویش کا اظہار کیا ۔ ملک کے موجودہ قوانین، برٹش دور میں جاری کرایے کے حوالے سے مولانا نیاز احمد فاروقی ایڈوکیٹ نے اظہار خیال کرتے ہوئے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی ، انھوں نے یہ بھی کہا کہ برٹش حکومت نے مسلم زمین داروں اور مالکوں کو ان کی جائیداد سے محروم کرنے کے لیے جو حربے اپنائے ان میں سے کرایے داری قانون بنانے کا معاملہ بھی ہے۔اس تعلق سے کئی امور زیر بحث آئے۔ مفتیوں کی طرف سے اختلافی آراء کا بھی اظہار کیا گیا۔متفقہ طور پر رائے بنانے کے مقصد سے سات نفری کمیٹی تشکیل دی گئی ۔ کرایہ داری کا مسئلہ جہاں تفصیل سے زیر بحث آیا وہیں کزشتہ نشستوں میں زیر بحث موضوعات کے سلسلے میں تشکیل کردہ کمیٹیوں نے جو تجاویز پیش کیں ، وہ بھی زیر بحث آئیں ۔اس سلسلے میں ایک اعلی سطحی کمیٹی تشکیل دی گئی جس کے ارکان مفتی سعید احمد پالن پوری ، مولانا نعمت اللہ اعظمی ، مولانا ریاست علی بجنوری ، مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری ، مولانا عتیق بستوی ،مولانا برہان الدین سنبھلی ، مولانا زبیر ، مفتی حبیب الرحمن ، مفتی زین الاسلام، مولانا عبداللہ معروفی ، مفتی سلمان منصورپوری ،مولانا جمیل احمد نذیری، مفتی عثمان قاسمی گرینی ، مفتی اختر امام عادل تھے ۔ زیر بحث عنوانات میں سے حقوق کی بیع کو آئندہ فقہی اجتماع کے لیے ملتوی کردیا گیا کیوں کہ اس کے بہت سارے پہلوؤں پر سیر بحث نہ ہوسکی ۔ دیگر تین عنوانات زمینوں کی خریدو فروخت کی کچھ رائج صورتیں ، طویل مدتی کرایہ کے مکانوں اور دکانوں میں حق وراثت اور کرایہ داری میں ڈپازٹ کی شرعی حیثیت پر تفصیلی بحث و مباحثے کے بعد تجاویز منظور کی گئیں :زمینوں کی خرید وفروخت کی رائج بعض صورتوں کے متعلق تجویز میں ان نکات کو متفقہ طورپہ سامنے لایا گیا ۱ - اگر خریدار مقررہ مدت میں پوری قیمت ادا کردے تو یہ عقد بلا شبہہ لازم ہو جائے گا اور خریدار کے تمام تصرفات صحیح اور معتبر ہوں گے اور اس زمین سے حاصل شدہ نفع بھی اس کے لیے حلال ہوگا۔۲ - اگر خریدار متعینہ مدت میں بائع کو قیمت ادا نہ کرسکا ، لیکن اس نے زمین میں کوئی تصرف بھی نہ کیا ، مثلاً اس کو کسی دوسرے کے ہاتھ فروخت نہیں کیا تو مدت مقررہ پوری ہوتے ہی سابقہ معاملہ کالعدم ہو جائے گا اور شروع میں دی گئی رقم اسے واپس کرنی ہوگی۔۳ -البتہ اگر فریقین اس مدت میں مزید توسیع کرنے پر راضی ہوں تو یہ از سرِ نو معاملہ سمجھا جائے گا۔۴ - متعینہ مدت میں پوری قیمت تو نہیں ادا کی البتہ بعض قیمت ادا کردی ہے اور اس دوران کوئی مالکانہ تصرف بھی نہیں کیا ہے تو بھی وقت گذرتے ہی یہ عقد کالعدم ہو جائے گا اور خریدار نے بائع کو جو قیمت ادا کر دی ہے وہ اسے واپس کرنی ہوگی ، بائع کے لیے اسے ضبط کرنا جائز نہیں ہے۔۵-اگر متعینہ مدت میں پوری قیمت ادا نہیں ہوئی لیکن خریدار نے زمین میں مالکانہ تصرف کرتے ہوئے اس زمین کا کوئی حصہ دوسرے کے ہاتھ فروخت کر دیا تو ایسی صورت میں خریدار کے تصرف کی وجہ سے یہ عقد لازم ہو جائے گا اور خریدار پر طے شدہ باقی رقم کی ادائیگی فی الفور ضروری ہوگی ، اب اگر خریدار قیمت کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرے تو بائع کو اختیار ہوگا کہ وہ باقی ماندہ حصہٴ زمین میں سے اپنی بقیہ رقم کے بقدر زمین وصول کرلے۔۶ - اگر کسی وجہ سے بیع اول فسخ ہواور اس دوران مشتری اول نے کسی تیسرے شخص سے وعدہ بیع کے ضمن میں کوئی رقم لے رکھی ہو تو صرف اسی قدر رقم واپس کرنی ہوگی جو مشتری اول نے اس سے لی ہے ، اس سے زیادہ رقم لینا جائز نہیں ہے۔۷ - چونکہ عام طور پر مقررہ وقت پر پوری قیمت ادا نہ ہونے کی صورت میں عقد لازم ماننے کی شکل میں مشتری کی طرف سے قیمت کی ادائیگی میں ٹال مٹول کا اندیشہ واقعی ہے جس میں بائع کا کھلا ہوا ضررہے ، اس لیے شریعت کی روشنی میں اس طرح کے معاملات میں بے غبار شکل یہ ہے کہ بائع اول شروع میں مشتری کے ہاتھ بیع قطعی نہ کرے بلکہ معاملہ وعدہٴ بیع کے درجہ میں رکھے اور خریدار کو دلال یا وکیل سمجھے، پھر جس قدر حصہ میں آگے بیع ہوتی رہے اسی قدر اس کا نفاذ ہوتا رہے ، اس صورت میں وقت پر قیمت ادا نہ ہونے کی شکل میں فساد یا لزوم کچھ نہ ہوگا اور درمیانی شخص (بلڈر وغیرہ) کو جو نفع ملے گا وہ اس کی دلالی یا وکالت کی اجرت شمار ہوگی اور عرفِ عام ہونے کی وجہ سے اس نفع میں جہالت مفضی الی النزاع نہ ہوگی۔ جب کہ دوسرے موضوع طویل مدتی کرایہ کے مکانوں اور دکانوں میں وراثت سے متعلق تجویز میں یہ طے کیا گیا کہ ۱ - کرایہ دار کو شرعی اصول کی روشنی میں حقیقی مالک کے درجہ میں نہیں رکھا جا سکتا ، بلکہ وہ صرف کرایہ داری کے زمانے میں اس ملکیت سے انتفاع کا حق رکھتا ہے ، بیع وشراء کا حق نہیں رکھتا۔۲ - اگر کرایہ داری کی مدت متعین ہو تو مقررہ وقت گذرنے پر عقدِ اجارہ خود بخود ختم ہو جائے گا ، اب یا تومالک سے صراحتاً یا دلالةًنیا عقد کیا جائے یامالک کے مطالبہ پر جائداد خالی کر دی جائے ، اس صورت میں مالک کی مرضی کے بغیر کرایہ دار کا جبری قبضہ جائز نہیں ہے ، بلکہ صریح ظلم ہے۔۳ - طویل مدتی کرایہ داری کی وجہ سے اگر چہ کرایہ دار کو مالکانہ حقوق حاصل نہ ہوں گے لیکن بعض صورتوں - جیسے پٹہ دوامی یا اس کے مشابہ - میں کرایہ داروں کو حق قرار حاصل ہوگا اور مالک کو بلا کسی عذرِ شرعی کے معاملہ کو فسخ کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔۴ - جن صورتوں میں کرایہ دار کو شرعاً کرایہ داری برقرار رکھنے کا استحقاق ہو ان صورتوں میں اس کی وفات کے بعد تمام ورثاء کے حق میں یہ استحقاق رہے گا ، کسی ایک وارث کو یہ حق نہ ہوگا کہ وہ اپنے نام کرایہ داری منتقل کراکے دوسروں کو محروم کردے۔۵ - نیز اس صورت میں اگر حقِ اجارہ داری سے دست برداری کے بدلہ کوئی معاوضہ حاصل کیا جاتا ہے تو اس میں حسبِ اصولِ شرع تمام ورثاء حق دار ہوں گے۔ کرایے داری میں ڈپازٹ سے متعلق تجویز میں کہا گیا ہے کہ۱ - کرایہ داری میں ڈپازٹ کا لین دین جائز ہے۔۲ - ڈپازٹ کی یہ رقم قرض ہے ۔۳ - مالک جائیداد کے لیے ڈپازٹ کی رقم کا استعمال کرنا جائز ہے۔۴ - ڈپازٹ کی رقم کے ساتھ کرایہ میں متعارف کرایہ سے بہت زیادہ کمی ”کل قرض جر نفعاً فہو ربٰو“ کے تحت داخل ہوکر نا جائز ہے۔۵ - ڈپازٹ کی رقم کی زکوٰ ة میں قرض کے سب احکام جاری ہوں گے۔ اس موقع پر فقہی اجتماع کے تناظر میں مختلف باتوں پر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدرجمعیة علماء ہند ، مولانا نعمت اللہ اعظمی اور مولانا مفتی سعید پالن پوری نے اپنے صدارتی کلمات میں موجودہ حالات میں مسائل کے حل کی ذمے داری علماء اور مفتیان کرام کو ادا کرنی ہوگی۔مولانا قاری محمد عثمان نے کہا کہ یہ سلسلہ آگے بھی ان شاء اللہ جاری رہے گا تاکہ ہم لوگوں کے مل بیٹھنے اورمسائل کے حل کی راہ ہموار ہوتی رہے۔ان کے علاوہ آج کی نشست میں مولانا عبدالحق اعظمی ، مولانا انیس الرحمن صاحب ناظم امارت شرعیہ بہار وجھارکھنڈ ، مولانا متین الحق اسامہ کان پوری ،مولانا ظہور احمد وغیرہ نے بھی خطاب کیے ۔مفتی سعید احمد پالن پوری کی دعاء پر فقہی اجتماع اختتام پذیر ہوا ،مولانا حسیب صدیقی نے مہمانوں کا شکریہ اداکیا۔ Comments are closed.
|
Archives
January 2020
Categories
All
Archives
January 2020
|